صحیح بخاری

علم کے بیان

علم کی فضیلت کے بیان میں

وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‏‏‏‏. وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا‏‏‏‏.

جو تم میں ایماندار ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے اللہ ان کے درجات بلند کرے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے(سورۃ طہٰ میں) فرمایا (کہ یوں دعا کیا کرو) پروردگار مجھ کو علم میں ترقی عطا فرما۔

اس بیان میں کہ جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اپنی کسی دوسری بات میں مشغول ہو پس ( ادب کا تقاضا ہے کہ ) وہ پہلے اپنی بات پوری کر لے پھر پوچھنے والے کو جواب دے

حد یث نمبر - 59

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ . ح وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَتَى السَّاعَةُ ؟ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ:‏‏‏‏ سَمِعَ مَا قَالَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَرِهَ مَا قَالَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ بَلْ لَمْ يَسْمَعْ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ أُرَاهُ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِذَا ضُيِّعَتِ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ إِضَاعَتُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ".

ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ (فلیح) نے بیان کیا، کہا ہلال بن علی نے، انہوں نے عطاء بن یسار سے نقل کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ (جو مجلس میں تھے) کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس (دیہاتی) نے کہا (یا رسول اللہ!) میں موجود ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت (ایمانداری دنیا سے) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب (حکومت کے کاروبار) نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔

اس کے بارے میں جس نے علمی مسائل کے لیے اپنی آواز کو بلند کیا

حد یث نمبر - 60

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَخَلَّفَ عَنَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقَتْنَا الصَّلَاةُ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:‏‏‏‏ "وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا".

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ابوبشر سے بیان کیا، انہوں نے یوسف بن ماہک سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے، انہوں نے کہا ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اس وقت ملے جب (عصر کی) نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم (جلدی جلدی) وضو کر رہے تھے۔ پس پاؤں کو خوب دھونے کے بدل ہم یوں ہی سا دھو رہے تھے۔ (یہ حال دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے دو یا تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں ہی بلند آواز سے) فرمایا۔

محدث کا لفظ «حدثنا أو ، أخبرنا وأنبأنا» استعمال کرنا صحیح ہے

وَقَالَ لَنَا الْحُمَيْدِيُّ كَانَ عِنْدَ ابْنِ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا وَأَخْبَرَنَا وَأَنْبَأَنَا وَسَمِعْتُ وَاحِدًا. وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ. وَقَالَ شَقِيقٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَةً. وَقَالَ حُذَيْفَةُ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ. وَقَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ. وَقَالَ أَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ. وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ.

جیسا کہ امام حمیدی نے کہا کہ ابن عیینہ کے نزدیک الفاظ «حدثنا» اور «اخبرنا» اور «انبانا» اور «سمعت» ایک ہی تھے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی یوں ہی کہا «حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم» درحالیکہ آپ سچوں کے سچے تھے۔ اور شقیق نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی اور حذیفہ نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں اور ابوالعالیہ نے روایت کیا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار سے اور انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار سے۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تمہارے رب اللہ تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہیں۔

محدث کا لفظ «حدثنا أو ، أخبرنا وأنبأنا» استعمال کرنا صحیح ہے

حد یث نمبر - 61

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، ‏‏‏‏‏‏فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالُوا:‏‏‏‏ حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هِيَ النَّخْلَةُ".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر لوگوں کا خیال جنگل کے درختوں کی طرف دوڑا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ مگر میں اپنی (کم سنی کی) شرم سے نہ بولا۔ آخر صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے پوچھا کہ وہ کون سا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔

استاد اپنے شاگردوں کا علم آزمانے کے لیے ان سے کوئی سوال کرے ( یعنی امتحان لینے کا بیان )

حد یث نمبر - 62

حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، ‏‏‏‏‏‏حَدِّثُونِي مَا هِيَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ فَاسْتَحْيَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالُوا:‏‏‏‏ حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هِيَ النَّخْلَةُ".

ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (ایک مرتبہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں میں چلے گئے۔ عبداللہ نے کہا کہ میرے دل میں آیا کہ بتلا دوں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن (وہاں بہت سے بزرگ موجود تھے اس لیے) مجھ کو شرم آئی۔ آخر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی بیان فرما دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔

شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور اس کو سنانا

وَقَوْلِهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا‏‏‏‏ الْقِرَاءَةُ وَالْعَرْضُ عَلَى الْمُحَدِّثِ. وَرَأَى الْحَسَنُ وَالثَّوْرِيُّ وَمَالِكٌ الْقِرَاءَةَ جَائِزَةً، ‏‏‏‏‏‏وَاحْتَجَّ بَعْضُهُمْ فِي الْقِرَاءَةِ عَلَى الْعَالِمِ بِحَدِيثِ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ قَالَ:‏‏‏‏ «نَعَمْ». قَالَ فَهَذِهِ قِرَاءَةٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ ضِمَامٌ قَوْمَهُ بِذَلِكَ فَأَجَازُوهُ. وَاحْتَجَّ مَالِكٌ بِالصَّكِّ يُقْرَأُ عَلَى الْقَوْمِ فَيَقُولُونَ أَشْهَدَنَا فُلاَنٌ. وَيُقْرَأُ ذَلِكَ قِرَاءَةً عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقْرَأُ عَلَى الْمُقْرِئِ فَيَقُولُ الْقَارِئُ أَقْرَأَنِي فُلاَنٌ.

اور امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ تو یہ (گویا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انہوں نے اس کو جائز رکھا۔ اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔

شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور اس کو سنانا

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ عَوْفٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ لاَ بَأْسَ بِالْقِرَاءَةِ عَلَى الْعَالِمِ. وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرَبْرِيُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ قَالَ إِذَا قُرِئَ عَلَى الْمُحَدِّثِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَقُولَ حَدَّثَنِي. قَالَ وَسَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ يَقُولُ عَنْ مَالِكٍ وَسُفْيَانَ الْقِرَاءَةُ عَلَى الْعَالِمِ وَقِرَاءَتُهُ سَوَاءٌ.

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انہوں نے عوف سے، انہوں نے حسن بصری سے،انہوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔

شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور اس کو سنانا

حد یث نمبر - 63

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ هُوَ الْمَقْبُرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِك ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَقَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ لَهُمْ:‏‏‏‏ أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ ؟ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ هَذَا الرَّجُلُ الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قَدْ أَجَبْتُكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الرَّجُلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنِّي سَائِلُكَ، ‏‏‏‏‏‏فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي الْمَسْأَلَةِ فَلَا تَجِدْ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَسْأَلُكَ بِرَبِّكَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَكَ، ‏‏‏‏‏‏آللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنَ السَّنَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمَهَا عَلَى فُقَرَائِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الرَّجُلُ:‏‏‏‏ آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ"، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے سعید مقبری سے، انہوں نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے، انہوں نے انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون سے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا () محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔ وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا (تحقیق حال کے لیے) آیا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔ اس حدیث کو (لیث کی طرح) موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے سلیمان سے روایت کیا، انہوں نے ثابت سے، انہوں نے انس سے، انہوں نے یہی مضمون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمسے نقل کیا ہے۔

 

 

 

حدثنا موسي بن اسمعيل قال حدثنا سليمان بن المغير ة قال حدثنا قال حدثنا ثابت عن انس قال نهينا في القرآن ان نسال النبي صلي الله عليه وسلم وکان يعجبنا ان يجئ الرجل من اهل البادية فساله ونحن نسمع فجائ رجل من اهل البادية فساله فقال اتانا رسولک فاخبر نا انک تزعم ان الله عزوجل ارسلک قال صدق فقال فمن خلق السمائ قال الله عزوجل قال فمن خلق الارض والجبال قال الله عزوجل قال فمن جعل فيها المنافع قال الله عزوجل قال فقاالذي خلق السمائ وخلق الارض و نصب الجبال وجعل فيها المنافع الله ارسلک قال نعم قال زعم رسو لک ان علينا خمس صلوات وزکوة في اموالنا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال وزعم رسولک ان علينا حج البيت من استطاع اليه سبيلا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال فوالذي بعثک بالحق لا ازيد عليهن شيئا ولاانقص فقال النبي صلي الله عليه وسلم ان صدق ليد خلن الجنة

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے انس سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم کو قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) ہمارے ہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، ایسا آپ کا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کئے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔ (اللہ نے مجھ کو رسول بنایا ہے) پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوٰۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں، کیا یہ درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا ہے کیا اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔ پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔ پھر وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔ (بلکہ ان ہی کے مطابق اپنی زندگی گزاروں گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔ (نوٹ: صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے)۔

مناولہ کا بیان اور اہل علم کا علمی باتیں لکھ کر ( دوسرے ) شہروں کو بھیجنا

وَقَالَ أَنَسٌ نَسَخَ عُثْمَانُ الْمَصَاحِفَ، ‏‏‏‏‏‏فَبَعَثَ بِهَا إِلَى الآفَاقِ. وَرَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَمَالِكٌ ذَلِكَ جَائِزًا. وَاحْتَجَّ بَعْضُ أَهْلِ الْحِجَازِ فِي الْمُنَاوَلَةِ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ كَتَبَ لأَمِيرِ السَّرِيَّةِ كِتَابًا وَقَالَ:‏‏‏‏ «لاَ تَقْرَأْهُ حَتَّى تَبْلُغَ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا». فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ الْمَكَانَ قَرَأَهُ عَلَى النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَهُمْ بِأَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

اور انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف (یعنی قرآن) لکھوائے اور انہیں چاروں طرف بھیج دیا۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، یحییٰ بن سعید، اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ (کتابت) جائز ہے۔ اور بعض اہل حجاز نے مناولہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں آپ نے امیر لشکر کے لیے خط لکھا تھا۔ پھر (قاصد سے) فرمایا تھا کہ جب تک تم فلاں فلاں جگہ نہ پہنچ جاؤ اس خط کو مت پڑھنا۔ پھر جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو اس نے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا وہ انہیں بتلایا۔

مناولہ کا بیان اور اہل علم کا علمی باتیں لکھ کر ( دوسرے ) شہروں کو بھیجنا

حد یث نمبر - 64

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِكِتَابِهِ رَجُلًا وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَفَعَهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَرَأَهُ مَزَّقَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَحَسِبْتُ أَنَّ ابْنَ الْمُسَيَّبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ".

اسماعیل بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے صالح کے واسطے سے روایت کی، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنا ایک خط دے کر بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ اسے حاکم بحرین کے پاس لے جائے۔ بحرین کے حاکم نے وہ خط کسریٰ (شاہ ایران) کے پاس بھیج دیا۔ جس وقت اس نے وہ خط پڑھا تو چاک کر ڈالا (راوی کہتے ہیں) اور میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے (اس کے بعد) مجھ سے کہا کہ (اس واقعہ کو سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ(بھی چاک شدہ خط کی طرح) ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔

مناولہ کا بیان اور اہل علم کا علمی باتیں لکھ کر ( دوسرے ) شہروں کو بھیجنا

حد یث نمبر - 65

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا أَوْ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِنَّهُمْ لَا يَقْرَءُونَ كِتَابًا إِلَّا مَخْتُومًا، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِهِ فِي يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ:‏‏‏‏ مَنْ قَالَ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَسٌ".

ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، ان سے عبداللہ نے، انہیں شعبہ نے قتادہ سے خبر دی، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے) ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے (یعنی بے مہر کے خط کو مستند نہیں سمجھتے) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ جس میں «محمد رسول الله‏» کندہ تھا۔ گویا میں (آج بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ (شعبہ راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے قتادہ سے پوچھا کہ یہ کس نے کہا (کہ) اس پر «محمد رسول الله‏» کندہ تھا؟ انہوں نے جواب دیا، انس رضی اللہ عنہ نے۔

وہ شخص جو مجلس کے آخر میں بیٹھ جائے اور وہ شخص جو درمیان میں جہاں جگہ دیکھے بیٹھ جائے ( بشرطیکہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو )

حد یث نمبر - 66

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ مَعَهُ إِذْ أَقْبَلَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ اثْنَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَهَبَ وَاحِدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَقَفَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَرَأَى فُرْجَةً فِي الْحَلْقَةِ فَجَلَسَ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَجَلَسَ خَلْفَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الثَّالِثُ فَأَدْبَرَ ذَاهِبًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنِ النَّفَرِ الثَّلَاثَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَمَّا أَحَدُهُمْ فَأَوَى إِلَى اللَّهِ فَآوَاهُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَاسْتَحْيَا فَاسْتَحْيَا اللَّهُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَعْرَضَ فَأَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ".

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ان سے مالک نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ کے واسطے سے ذکر کیا، بیشک ابومرہ مولیٰ عقیل بن ابی طالب نے انہیں ابوواقد اللیثی سے خبر دی کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ تین آدمی وہاں آئے (ان میں سے) دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پہنچ گئے اور ایک واپس چلا گیا۔ (راوی کہتے ہیں کہ) پھر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے (جب) مجلس میں (ایک جگہ کچھ) گنجائش دیکھی، تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا اہل مجلس کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا جو تھا وہ لوٹ گیا۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی گفتگو سے) فارغ ہوئے (تو صحابہ رضی اللہ عنہم سے) فرمایا کہ کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ تو (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ سے پناہ چاہی اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے کو شرم آئی تو اللہ بھی اس سے شرمایا (کہ اسے بھی بخش دیا) اور تیسرے شخص نے منہ موڑا، تو اللہ نے (بھی) اس سے منہ موڑ لیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تفصیل میں کہ بسا اوقات وہ شخص جسے ( حدیث ) پہنچائی جائے سننے والے سے زیادہ ( حدیث کو ) یاد رکھ لیتا ہے

حد یث نمبر - 67

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا بِشْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ سِيرِينَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏ذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَعَدَ عَلَى بَعِيرِهِ وَأَمْسَكَ إِنْسَانٌ بِخِطَامِهِ أَوْ بِزِمَامِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا ؟ فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ ؟ قُلْنَا:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا ؟ فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَيْسَ بِذِي الْحِجَّةِ ؟ قُلْنَا:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، ‏‏‏‏‏‏كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الشَّاهِدَ عَسَى أَنْ يُبَلِّغَ مَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ مِنْهُ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر نے، ان سے ابن عون نے ابن سیرین کے واسطے سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے نقل کیا، انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج یہ کون سا دن ہے؟ ہم خاموش رہے، حتیٰ کہ ہم سمجھے کہ آج کے دن کا آپ کوئی دوسرا نام اس کے نام کے علاوہ تجویز فرمائیں گے (پھر)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بیشک۔ (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم (اس پر بھی) خاموش رہے اور یہ (ہی) سمجھے کہ اس مہینے کا (بھی) آپ اس کے نام کے علاوہ کوئی دوسرا نام تجویز فرمائیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بیشک۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تو یقیناً تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ پس جو شخص حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ (بات) پہنچا دے، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ جو شخص یہاں موجود ہے وہ ایسے شخص کو یہ خبر پہنچائے، جو اس سے زیادہ (حدیث کا) یاد رکھنے والا ہو۔

اس بیان میں کہ علم ( کا درجہ ) قول و عمل سے پہلے ہے

لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏فَاعْلَمْ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‏‏‏‏ فَبَدَأَ بِالْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ- وَرَّثُوا الْعِلْمَ- مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ. وَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏وَمَا يَعْقِلُهَا إِلاَّ الْعَالِمُونَ‏‏‏‏، ‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ‏‏‏‏. وَقَالَ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ‏‏‏‏. وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ». وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ لَوْ وَضَعْتُمُ الصَّمْصَامَةَ عَلَى هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى قَفَاهُ- ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تُجِيزُوا عَلَيَّ لأَنْفَذْتُهَا. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏كُونُوا رَبَّانِيِّينَ‏‏‏‏ حُكَمَاءَ فُقَهَاءَ. وَيُقَالُ الرَّبَّانِيُّ الَّذِي يُرَبِّي النَّاسَ بِصِغَارِ الْعِلْمِ قَبْلَ كِبَارِهِ.

اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «فاعلم أنه لا إله إلا الله‏» (آپ جان لیجیئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے) تو(گویا) اللہ تعالیٰ نے علم سے ابتداء فرمائی اور (حدیث میں ہے) کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پھر جس نے علم حاصل کیا اس نے (دولت کی) بہت بڑی مقدار حاصل کر لی۔ اور جو شخص کسی راستے پر حصول علم کے لیے چلے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور (دوسری جگہ) فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔ اور فرمایا، اور ان لوگوں (کافروں) نے کہا اگر ہم سنتے یا عقل رکھتے تو جہنمی نہ ہوتے۔ اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔ اور علم تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تم اس پر تلوار رکھ دو، اور اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا، اور مجھے گمان ہو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ایک کلمہ سنا ہے، گردن کٹنے سے پہلے بیان کر سکوں گا تو یقیناً میں اسے بیان کر ہی دوں گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ (میری بات) غائب کو پہنچا دے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ آیت «كونوا ربانيين‏» سے مراد حکماء، فقہاء، علماء ہیں۔ اور «رباني» اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی (علمی) تربیت کرے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے نصیحت فرمانے اور تعلیم دینے کے بیان میں تاکہ انہیں ناگوار نہ ہو

حد یث نمبر - 68

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الْأَيَّامِ كَرَاهَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا".

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہیں سفیان نے اعمش سے خبر دی، وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت فرمانے کے لیے کچھ دن مقرر کر دیئے تھے اس ڈر سے کہ کہیں ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے نصیحت فرمانے اور تعلیم دینے کے بیان میں تاکہ انہیں ناگوار نہ ہو

حد یث نمبر - 69

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو التَّيَّاحِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، ‏‏‏‏‏‏وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا".

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے شعبہ نے، ان سے ابوالتیاح نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلاؤ۔

اس بارے میں کہ کوئی شخص اہل علم کے لیے کچھ دن مقرر کر دے ( تو یہ جائز ہے ) یعنی استاد اپنے شاگردوں کے لیے اوقات مقرر کر سکتا ہے

حد یث نمبر - 70

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا".

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ(ابن مسعود) رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ سنایا کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمٰن! میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیں ہر روز وعظ سنایا کرو۔ انہوں نے فرمایا، تو سن لو کہ مجھے اس امر سے کوئی چیز مانع ہے تو یہ کہ میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کہیں تم تنگ نہ ہو جاؤ اور میں وعظ میں تمہاری فرصت کا وقت تلاش کیا کرتا ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے کہ ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں، وعظ کے لیے ہمارے اوقات فرصت کا خیال رکھتے تھے۔

اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے

حد یث نمبر - 71

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ خَطِيبًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ".

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، ان سے وہب نے یونس کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں نے معاویہ سے سنا۔ وہ خطبہ میں فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے (اور یہ عالم فنا ہو جائے)۔

علم میں سمجھداری سے کام لینے کے بیان میں

حد یث نمبر - 72

حَدَّثَنَا عَلِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَسْمَعْهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِجُمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً مَثَلُهَا كَمَثَلِ الْمُسْلِمِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ:‏‏‏‏ هِيَ النَّخْلَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَكَتُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هِيَ النَّخْلَةُ".

ہم سے علی (بن مدینی) نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ابن ابی نجیح نے مجاہد کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدینے تک رہا، میں نے (اس) ایک حدیث کے سوا ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اور حدیث نہیں سنی، وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک گابھا لایا گیا۔ (اسے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت ایسا ہے اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔ (ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ سن کر) میں نے ارادہ کیا کہ عرض کروں کہ وہ (درخت) کھجور کا ہے مگر چونکہ میں سب میں چھوٹا تھا اس لیے خاموش رہا۔ (پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے۔

علم و حکمت میں رشک کرنے کے بیان میں

وَقَالَ عُمَرُ تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا.

اور عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سردار بننے سے پہلے سمجھدار بنو (یعنی دین کا علم حاصل کرو) اور ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ)فرماتے ہیں کہ سردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے بڑھاپے میں بھی دین سیکھا۔

علم و حکمت میں رشک کرنے کے بیان میں

حد یث نمبر - 73

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَلَى غَيْرِ مَا حَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا".

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے دوسرے لفظوں میں بیان کیا، ان لفظوں کے علاوہ جو زہری نے ہم سے بیان کئے، وہ کہتے ہیں میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت(کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔

موسیٰ علیہ السلام کے خضر علیہ السلام کے پاس دریا میں جانے کے ذکر میں

وَقَوْلِهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا‏‏‏‏.

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (جو موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے) کیا میں تمہارے ساتھ چلوں اس شرط پر کہ تم مجھے (اپنے علم سے کچھ) سکھاؤ۔

موسیٰ علیہ السلام کے خضر علیہ السلام کے پاس دریا میں جانے کے ذکر میں

حد یث نمبر - 74

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ هُوَ خَضِرٌ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ "بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ ؟ قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ ؟ فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، ‏‏‏‏‏‏وَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِمُوسَى فَتَاهُ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، ‏‏‏‏‏‏فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ".

ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا، ان سے یعقوب بن ابراہیم نے، ان سے ان کے باپ (ابراہیم) نے، انہوں نے صالح سے سنا، انہوں نے ابن شہاب سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے خبر دی کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحثے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے۔ پھر ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میں اور میرے یہ رفیق موسیٰ علیہ السلام کے اس ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے انہوں نے ملاقات چاہی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ ذکر سنا ہے۔ انہوں نے کہا، ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک دن موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ(دنیا میں) کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے (جس کا علم تم سے زیادہ ہے) موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر علیہ السلام سے ملنے کی کیا صورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو(واپس) لوٹ جاؤ، تب خضر سے تمہاری ملاقات ہو گی۔ تب موسیٰ (چلے اور) دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے، کیا آپ نے دیکھا تھا، میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی۔ تب وہ اپنے نشانات قدم پر (پچھلے پاؤں) باتیں کرتے ہوئے لوٹے(وہاں) انہوں نے خضر علیہ السلام کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اللہ اسے قرآن کا علم عطا فرمائیو !

حد یث نمبر - 75

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ضَمَّنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ "اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ".

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے، ان سے خالد نے عکرمہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (سینے سے) لگا لیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اے اللہ اسے علم کتاب (قرآن) عطا فرمائیو ۔

اس بارے میں کہ بچے کا ( حدیث ) سننا کس عمر میں صحیح ہے ؟

حد یث نمبر - 76

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْسَلْتُ الْأَتَانَ تَرْتَعُ فَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُنْكَرْ ذَلِكَ عَلَيَّ".

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) گدھی پر سوار ہو کر چلا، اس زمانے میں، میں بلوغ کے قریب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے دیوار (کی آڑ) نہ تھی، تو میں بعض صفوں کے سامنے سے گزرا اور گدھی کو چھوڑ دیا۔ وہ چرنے لگی، جب کہ میں صف میں شامل ہو گیا (مگر) کسی نے مجھے اس بات پر ٹوکا نہیں۔

اس بارے میں کہ بچے کا ( حدیث ) سننا کس عمر میں صحیح ہے ؟

حد یث نمبر - 77

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "عَقَلْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا ابْنُ خَمْسِ سِنِينَ مِنْ دَلْوٍ".

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ابومسہر نے، ان سے محمد بن حرب نے، ان سے زبیدی نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، وہ محمود بن الربیع سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول سے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی، اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔

علم کی تلاش میں نکلنے کے بارے میں

وَرَحَلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ فِي حَدِيثٍ وَاحِدٍ.

جابر بن عبداللہ کا ایک حدیث کی خاطر عبداللہ بن انیس کے پاس جانے کے لیے ایک ماہ کی مسافت طے کرنا۔

علم کی تلاش میں نکلنے کے بارے میں

حد یث نمبر - 78

حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ خَالِدُ بْنُ خَلِيٍّ قَاضِي حِمْصَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ ؟ فَقَالَ أُبَيٌّ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مُوسَى:‏‏‏‏ بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ اللَّهُ لَهُ الْحُوتَ آيَةً، ‏‏‏‏‏‏وَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَّبِعُ أَثَرَ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ فَتَى مُوسَى لِمُوسَى:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، ‏‏‏‏‏‏فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا مَا قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ".

ہم سے ابوالقاسم خالد بن خلی قاضی حمص نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرب نے، اوزاعی کہتے ہیں کہ ہمیں زہری نے عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے۔ (اس دوران میں) ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلا لیا اور کہا کہ میں اور میرے (یہ) ساتھی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے ملنے کی موسیٰ علیہ السلام نے (اللہ سے) دعا کی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنا ہے؟ ابی نے کہا کہ ہاں! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا حال بیان فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرما رہے تھے کہ ایک بار موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں آپ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم موجود ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر (علم میں تم سے بڑھ کر) ہے۔ تو موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کی راہ دریافت کی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے (ان سے ملاقات کے لیے) مچھلی کو نشانی قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ جانا، تب تم خضر علیہ السلام سے ملاقات کر لو گے۔ موسیٰ علیہ السلام دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرتے رہے۔ تب ان کے خادم نے ان سے کہا۔ کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم پتھر کے پاس تھے، تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا۔ اور مجھے شیطان ہی نے غافل کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم اسی (مقام) کے تو متلاشی تھے، تب وہ اپنے (قدموں کے) نشانوں پر باتیں کرتے ہوئے واپس لوٹے۔ (وہاں) خضر علیہ السلام کو انہوں نے پایا۔ پھر ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔

پڑھنے اور پڑھانے والے کی فضیلت کے بیان میں

حد یث نمبر - 79

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ قَبِلَتِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً، ‏‏‏‏‏‏فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ قَالَ إِسْحَاقُ :‏‏‏‏ وَكَانَ مِنْهَا طَائِفَةٌ قَيَّلَتِ الْمَاءَ قَاعٌ يَعْلُوهُ الْمَاءُ وَالصَّفْصَفُ الْمُسْتَوِي مِنَ الْأَرْضِ.

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے حماد بن اسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابی بردہ سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوموسیٰ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر (خوب) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا (یعنی توجہ نہیں کی) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق نے ابواسامہ کی روایت سے «قبلت الماء» کا لفظ نقل کیا ہے۔ قاعاس خطہٰ زمین کو کہتے ہیں جس پر پانی چڑھ جائے (مگر ٹھہرے نہیں) اور «صفصف»اس زمین کو کہتے ہیں جو بالکل ہموار ہو۔

علم کے زوال اور جہل کی اشاعت کے بیان میں

وَقَالَ رَبِيعَةُ لاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ عِنْدَهُ شَيْءٌ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ يُضَيِّعَ نَفْسَهُ.

اور ربیعہ کا قول ہے کہ جس کے پاس کچھ علم ہو، اسے یہ جائز نہیں کہ (دوسرے کام میں لگ کر علم کو چھوڑ دے اور) اپنے آپ کو ضائع کر دے۔

علم کے زوال اور جہل کی اشاعت کے بیان میں

حد یث نمبر - 80

حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَثْبُتَ الْجَهْلُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَظْهَرَ الزِّنَا".

ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے ابوالتیاح کے واسطے سے نقل کیا، وہ انس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ (دینی) علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی جہل ظاہر ہو جائے گا۔ اور(علانیہ) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔

علم کے زوال اور جہل کی اشاعت کے بیان میں

حد یث نمبر - 81

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا لَا يُحَدِّثُكُمْ أَحَدٌ بَعْدِي، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَقِلَّ الْعِلْمُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَظْهَرَ الزِّنَا، ‏‏‏‏‏‏وَتَكْثُرَ النِّسَاءُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقِلَّ الرِّجَالُ حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةً الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا ان سے یحییٰ نے شعبہ سے نقل کیا، وہ قتادہ سے اور قتادہ انس سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو میرے بعد تم سے کوئی نہیں بیان کرے گا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ علم (دین) کم ہو جائے گا۔ جہل ظاہر ہو جائے گا۔ زنا بکثرت ہو گا۔ عورتیں بڑھ جائیں گی اور مرد کم ہو جائیں گے۔ حتیٰ کہ 50 عورتوں کا نگراں صرف ایک مرد رہ جائے گا۔

2 علم کی فضیلت کے بیان میں

حد یث نمبر - 82

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي اللَّيْث ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ حَتَّى إِنِّي لَأَرَى الرِّيَّ يَخْرُجُ فِي أَظْفَارِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْعِلْمَ".

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے لیث نے، ان سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، وہ حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے (خوب اچھی طرح) پی لیا۔ حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم۔

جانور وغیرہ پر سوار ہو کر فتویٰ دینا جائز ہے

حد یث نمبر - 83

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى لِلنَّاسِ يَسْأَلُونَهُ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ ارْمِ وَلَا حَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ:‏‏‏‏ افْعَلْ وَلَا حَرَجَ".

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، وہ عیسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو بن العاص سے نقل کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مسائل دریافت کرنے کی وجہ سے منیٰ میں ٹھہر گئے۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بےخبری میں ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) ذبح کر لے اور کچھ حرج نہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا، اس نے کہا کہ میں نے بےخبری میں رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) رمی کر لے۔ (اور پہلے کر دینے سے) کچھ حرج نہیں۔ ابن عمرو کہتے ہیں (اس دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کا بھی سوال ہوا، جو کسی نے آگے اور پیچھے کر لی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اب کر لے اور کچھ حرج نہیں۔

اس شخص کے بارے میں جو ہاتھ یا سر کے اشارے سے فتویٰ کا جواب دے

حد یث نمبر - 84

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ فِي حَجَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ ؟ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَلَا حَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ ؟ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا حَرَجَ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، ان سے ایوب نے عکرمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے (آخری) حج میں کسی نے پوچھا کہ میں نے رمی کرنے (یعنی کنکر پھینکنے) سے پہلے ذبح کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا (اور) فرمایا کچھ حرج نہیں۔ کسی نے کہا کہ میں نے ذبح سے پہلے حلق کرا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر سے اشارہ فرما دیا کہ کچھ حرج نہیں۔

اس شخص کے بارے میں جو ہاتھ یا سر کے اشارے سے فتویٰ کا جواب دے

حد یث نمبر - 85

حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "يُقْبَضُ الْعِلْمُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَظْهَرُ الْجَهْلُ وَالْفِتَنُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا الْهَرْجُ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَحَرَّفَهَا كَأَنَّه يُرِيدُ الْقَتْلَ".

ہم سے مکی ابن ابراہیم نے بیان کیا، انہیں حنظلہ نے سالم سے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب) علم اٹھا لیا جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! ہرج سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر فرمایا اس طرح، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قتل مراد لیا۔

اس شخص کے بارے میں جو ہاتھ یا سر کے اشارے سے فتویٰ کا جواب دے

حد یث نمبر - 86

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فَاطِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَسْمَاءَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "أَتَيْتُ عَائِشَةَ وَهِيَ تُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا شَأْنُ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ آيَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَيْ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ أُرِيتُهُ إِلَّا رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي حَتَّى الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، ‏‏‏‏‏‏فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِكُمْ مِثْلَ أَوْ قَرِيبًا لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أَسْمَاءُ:‏‏‏‏ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ:‏‏‏‏ مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي بِأَيِّهِمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أَسْمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ هُوَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى فَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا هُوَ مُحَمَّدٌ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ نَمْ صَالِحًا، ‏‏‏‏‏‏قَدْ عَلِمْنَا إِنْ كُنْتَ لَمُوقِنًا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أَسْمَاءُ:‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، ان سے ہشام نے فاطمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ اسماء سے روایت کرتی ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ تو انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا (یعنی سورج کو گہن لگا ہے) اتنے میں لوگ (نماز کے لیے) کھڑے ہو گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، اللہ پاک ہے۔ میں نے کہا (کیا یہ گہن) کوئی (خاص) نشانی ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! پھر میں (بھی نماز کے لیے) کھڑی ہو گئی۔ حتیٰ کہ مجھے غش آنے لگا، تو میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر (نماز کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت بیان فرمائی، پھر فرمایا، جو چیز مجھے پہلے دکھلائی نہیں گئی تھی آج وہ سب اس جگہ میں نے دیکھ لی، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا اور مجھ پر یہ وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے، «مثل» یا «قرب» کا کون سا لفظ اسماء نے فرمایا، میں نہیں جانتی، فاطمہ کہتی ہیں (یعنی) فتنہ دجال کی طرح (آزمائے جاؤ گے) کہا جائے گا (قبر کے اندر کہ) تم اس آدمی کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ تو جو صاحب ایمان یا صاحب یقین ہو گا، کون سا لفظ فرمایا اسماء رضی اللہ عنہا نے، مجھے یاد نہیں۔ وہ کہے گا وہ محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جو ہمارے پاس اللہ کی ہدایت اور دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے ان کو قبول کر لیا اور ان کی پیروی کی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تین بار (اسی طرح کہے گا) پھر (اس سے) کہہ دیا جائے گا کہ آرام سے سو جا بیشک ہم نے جان لیا کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھتا تھا۔ اور بہرحال منافق یا شکی آدمی، میں نہیں جانتی کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا۔ تو وہ(منافق یا شکی آدمی) کہے گا کہ جو لوگوں کو میں نے کہتے سنا میں نے (بھی) وہی کہہ دیا۔ (باقی میں کچھ نہیں جانتا۔)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ عبدالقیس کے وفد کو اس پر آمادہ کرنا کہ وہ ایمان لائیں اور علم کی باتیں یاد رکھیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی خبر کر دیں

وَقَالَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ قَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ «ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَعَلِّمُوهُمْ».

اور مالک بن الحویرث نے فرمایا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر انہیں (دین) علم سکھاؤ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ عبدالقیس کے وفد کو اس پر آمادہ کرنا کہ وہ ایمان لائیں اور علم کی باتیں یاد رکھیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی خبر کر دیں

حد یث نمبر - 87

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍوَبَيْنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنِ الْوَفْدُ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ رَبِيعَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نُخْبِرُ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏"فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، ‏‏‏‏‏‏أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَوْمُ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ. قَالَ شُعْبَةُ:‏‏‏‏ رُبَّمَا قَالَ النَّقِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ".

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے ابوجمرہ کے واسطے سے بیان کیا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا (ایک مرتبہ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان (کے لوگ ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو (آنا) یا مبارک ہو اس وفد کو (جو کبھی) نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو (اس کے بعد) انہوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ (پڑتا) ہے (اس کے خوف کی وجہ سے) ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام میں نہیں آ سکتے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسی (قطعی) بات بتلا دیجیئے کہ جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو خبر دے دیں۔ (اور) اس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے روک دیا۔ اول انہیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں۔ (پھر) فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ) اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور چار چیزوں سے منع فرمایا، دباء، حنتم، اور مزفت کے استعمال سے۔ اور (چوتھی چیز کے بارے میں) شعبہ کہتے ہیں کہ ابوجمرہ بسا اوقات «نقير» کہتے تھے اور بسا اوقات «مقير‏» ۔ (اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو۔

جب کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کے لیے سفر کرنا ( کیسا ہے ؟ )

حد یث نمبر - 88

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِيعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ:‏‏‏‏ مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي، ‏‏‏‏‏‏فَرَكِبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَارَقَهَا عُقْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ".

ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہیں عبداللہ نے خبر دی، انہیں عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے عقبہ ابن الحارث کے واسطے سے نقل کیا کہ عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ (یہ سن کر) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس طرح (تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے) حالانکہ (اس کے متعلق یہ) کہا گیا تب عقبہ بن حارث نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا خاوند کر لیا۔

اس بارے میں کہ ( طلباء کا حصول ) علم کے لیے ( استاد کی خدمت میں ) اپنی اپنی باری مقرر کرنا درست ہے

حد یث نمبر - 89

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ . ح قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ :‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ وَهِيَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَ صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَوْمَ نَوْبَتِهِ فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَثَمَّ هُوَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ طَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ:‏‏‏‏ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ اللَّهُ أَكْبَرُ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہیں شعیب نے زہری سے خبر دی (ایک دوسری سند سے) امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن وہب کو یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ ابن ابی ثور سے نقل کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، وہ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی دونوں اطراف مدینہ کے ایک گاؤں بنی امیہ بن زید میں رہتے تھے جو مدینہ کے (پورب کی طرف) بلند گاؤں میں سے ہے۔ ہم دونوں باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔ تو ایک دن وہ میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے روز حاضر خدمت ہوا (جب واپس آیا) تو اس نے میرا دروازہ بہت زور سے کھٹکھٹایا اور (میرے بارے میں پوچھا کہ) کیا عمر یہاں ہیں؟ میں گھبرا کر اس کے پاس آیا۔ وہ کہنے لگا کہ ایک بڑا معاملہ پیش آ گیا ہے۔ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے) پھر میں (اپنی بیٹی) حفصہ کے پاس گیا، وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ہے؟ وہ کہنے لگی میں نہیں جانتی۔ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کھڑے کھڑے کہا کہ کیا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ (یہ افواہ غلط ہے) تب میں نے(تعجب سے) کہا «الله اكبر» اللہ بہت بڑا ہے۔

استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے

حد یث نمبر - 90

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَا أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلَاةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ".

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا انہیں سفیان نے ابوخالد سے خبر دی، وہ قیس بن ابی حازم سے بیان کرتے ہیں، وہ ابومسعود انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (حزم بن ابی کعب) نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص (معاذ بن جبل) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں (جماعت کی) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا (کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا) (ابومسعود راوی کہتے ہیں) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم (ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے) نفرت دلانے لگے ہو۔ (سن لو) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے (سب ہی قسم کے لوگ) ہوتے ہیں۔

استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے

حد یث نمبر - 91

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عامِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ الْمَدِينِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ اللُّقَطَةِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ اعْرِفْ وِكَاءَهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَمْتِعْ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَضَالَّةُ الْإِبِلِ ؟ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ احْمَرَّ وَجْهُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَمَا لَكَ وَلَهَا، ‏‏‏‏‏‏مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا، ‏‏‏‏‏‏تَرِدُ الْمَاءَ وَتَرْعَى الشَّجَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَرْهَا حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ".

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابوعامر العقدی نے، وہ سلیمان بن بلال المدینی سے، وہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے، وہ یزید سے جو منبعث کے آزاد کردہ تھے، وہ زید بن خالد الجہنی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (عمیر یا بلال) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑی ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کی بندھن پہچان لے یا فرمایا کہ اس کا برتن اور تھیلی (پہچان لے) پھر ایک سال تک اس کی شناخت (کا اعلان) کراؤ پھر (اس کا مالک نہ ملے تو) اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے سونپ دو۔ اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ (کے بارے میں) کیا حکم ہے؟ آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے۔ یا راوی نے یہ کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تجھے اونٹ سے کیا واسطہ؟ اس کے ساتھ خود اس کی مشک ہے اور اس کے (پاؤں کے) سم ہیں۔ وہ خود پانی پر پہنچے گا اور خود پی لے گا اور خود درخت پر چرے گا۔ لہٰذا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔ اس نے کہا کہ اچھا گم شدہ بکری کے (بارے میں) کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی، ورنہ بھیڑئیے کی (غذا) ہے۔

استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے

حد یث نمبر - 92

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:‏‏‏‏ "سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ مَنْ أَبِي ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ حُذَافَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے اور وہ ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا (اچھا اب) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شبیہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ! ہم (ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں) اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔

اس شخص کے بارے میں جو امام یا محدث کے سامنے دو زانو ( ہو کر ادب کے ساتھ ) بیٹھے

حد یث نمبر - 93

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَبِي ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ حُذَافَةُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي، ‏‏‏‏‏‏فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا"، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتَ.

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہیں انس بن مالک نے بتلایا کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں (اور یہ جملہ) تین مرتبہ (دہرایا) پھر (یہ سن کر)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔

اس بارے میں کہ کوئی شخص سمجھانے کے لیے ( ایک ) بات کو تین مرتبہ دہرائے تو یہ ٹھیک ہے

فَقَالَ:‏‏‏‏ «أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ». فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا. وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ «هَلْ بَلَّغْتُ». ثَلاَثًا.

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے «ألا وقول الزور» اس کو تین بار دہراتے رہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تم کو پہنچا دیا (یہ جملہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دہرایا۔

اس بارے میں کہ کوئی شخص سمجھانے کے لیے ( ایک ) بات کو تین مرتبہ دہرائے تو یہ ٹھیک ہے

حد یث نمبر - 94

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَلَّمَ سَلَّمَ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا".

ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے عبدالصمد نے، ان سے عبداللہ بن مثنی نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار دہراتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔

اس بارے میں کہ کوئی شخص سمجھانے کے لیے ( ایک ) بات کو تین مرتبہ دہرائے تو یہ ٹھیک ہے

حد یث نمبر - 95

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَارُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّهُ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثًا".

ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے عبدالصمد نے، ان سے عبداللہ بن مثنی نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار لوٹاتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔ اور جب کچھ لوگوں کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور انہیں سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے۔

اس بارے میں کہ کوئی شخص سمجھانے کے لیے ( ایک ) بات کو تین مرتبہ دہرائے تو یہ ٹھیک ہے

حد یث نمبر - 96

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ سَافَرْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقْنَا الصَّلَاةَ صَلَاةَ الْعَصْرِ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:‏‏‏‏ وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی بشر کے واسطے سے بیان کیا، وہ یوسف بن ماھک سے بیان کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے، وہ کہتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمہمارے قریب پہنچے۔ تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا یا تنگ ہو گیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا کہ آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی (جو خشک رہ جائیں) خرابی ہے۔ یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ۔

اس بارے میں کہ مرد کا اپنی باندی اور گھر والوں کو تعلیم دینا ( ضروری ہے )

حد یث نمبر - 97

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ حَيَّانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عَامِرٌ الشَّعْبِيُّ :‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "ثَلَاثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ، ‏‏‏‏‏‏رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوكُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ"، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ عَامِرٌ:‏‏‏‏ أَعْطَيْنَاكَهَا بِغَيْرِ شَيْءٍ قَدْ كَانَ يُرْكَبُ فِيمَا دُونَهَا إِلَى الْمَدِينَةِ.

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں محاربی نے خبر دی، وہ صالح بن حیان سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عامر شعبی نے بیان کیا، کہا ان سے ابوبردہ نے اپنے باپ کے واسطے سے نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کے لیے دو گنا اجر ہے۔ ایک وہ جو اہل کتاب سے ہو اور اپنے نبی پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور (دوسرے) وہ غلام جو اپنے آقا اور اللہ (دونوں) کا حق ادا کرے اور (تیسرے) وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہو۔ جس سے شب باشی کرتا ہے اور اسے تربیت دے تو اچھی تربیت دے، تعلیم دے تو عمدہ تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے، تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے۔ پھر عامر نے (صالح بن حیان سے) کہا کہ ہم نے یہ حدیث تمہیں بغیر اجرت کے سنا دی ہے (ورنہ) اس سے کم حدیث کے لیے مدینہ تک کا سفر کیا جاتا تھا۔

اس بارے میں کہ امام کا عورتوں کو بھی نصیحت کرنا اور تعلیم دینا ( ضروری ہے )

حد یث نمبر - 98

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَطَاءً ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ عَطَاءٌ أَشْهَدُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ، ‏‏‏‏‏‏فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِلَالٌ يَأْخُذُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ :‏‏‏‏ عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ایوب کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے سنا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں، یا عطاء نے کہا کہ میں ابن عباس پر گواہی دیتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سے) نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو (خطبہ اچھی طرح) نہیں سنائی دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا (یہ وعظ سن کر) کوئی عورت بالی (اور کوئی عورت) انگوٹھی ڈالنے لگی اور بلال رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے دامن میں (یہ چیزیں) لینے لگے۔ اس حدیث کو اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے روایت کیا، انہوں نے عطاء سے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یوں کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں (اس میں شک نہیں ہے)۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ اگلا باب عام لوگوں سے متعلق تھا اور یہ حاکم اور امام سے متعلق ہے کہ وہ بھی عورتوں کو وعظ سنائے۔

علم حدیث حاصل کرنے کی حرص کے بارے میں

حد یث نمبر - 99

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ لَا يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ أَوْ نَفْسِهِ".

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے سلیمان نے عمرو بن ابی عمرو کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ سعید بن ابی سعید المقبری کے واسطے سے بیان کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔ سنو! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا، جو سچے دل سے یا سچے جی سے «لا إله إلا الله» کہے گا۔

اس بیان میں کہ علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا ؟

وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ انْظُرْ مَا كَانَ مِنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَهَابَ الْعُلَمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَلاَ تَقْبَلْ إِلاَّ حَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلْتُفْشُوا الْعِلْمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلْتَجْلِسُوا حَتَّى يُعَلَّمَ مَنْ لاَ يَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الْعِلْمَ لاَ يَهْلِكُ حَتَّى يَكُونَ سِرًّا. حَدَّثَنَا الْعَلاَءُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي حَدِيثَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى قَوْلِهِ ذَهَابَ الْعُلَمَاءِ.

اور (خلیفہ خامس) عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی بھی حدیثیں ہوں، ان پر نظر کرو اور انہیں لکھ لو، کیونکہ مجھے علم دین کے مٹنے اور علماء دین کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے سوا کسی کی حدیث قبول نہ کرو اور لوگوں کو چاہیے کہ علم پھیلائیں اور (ایک جگہ جم کر) بیٹھیں تاکہ جاہل بھی جان لے اور علم چھپانے ہی سے ضائع ہوتا ہے۔ ہم سے علاء بن عبدالجبار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے عبداللہ بن دینار کے واسطے سے اس کو بیان کیا یعنی عمر بن عبدالعزیز کی حدیث «ذهاب العلماء‏» تک۔

اس بیان میں کہ علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا ؟

حد یث نمبر - 100

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، ‏‏‏‏‏‏فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْفِرَبْرِيُّ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ.

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے مالک نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ فربری نے کہا ہم سے عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے قتیبہ نے، کہا ہم سے جریر نے، انہوں نے ہشام سے مانند اس حدیث کے۔

اس بیان میں کہ کیا عورتوں کی تعلیم کے لیے کوئی خاص دن مقرر کیا جا سکتا ہے ؟

حد یث نمبر - 101

حَدَّثَنَا آدَمُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ الْأَصْبَهَانِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتِ النِّسَاءُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ غَلَبَنَا عَلَيْكَ الرِّجَالُ، ‏‏‏‏‏‏فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ فِيمَا قَالَ لَهُنَّ"مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ ثَلَاثَةً مِنْ وَلَدِهَا إِلَّا كَانَ لَهَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ امْرَأَةٌ وَاثْنَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاثْنَتَيْنِ".

ہم سے آدم نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابن الاصبہانی نے، انہوں نے ابوصالح ذکوان سے سنا، وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فائدہ اٹھانے میں) مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے (وعظ کے) لیے (بھی) کوئی دن خاص فرما دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرما لیا۔ اس دن عورتوں سے آپ نے ملاقات کی اور انہیں وعظ فرمایا اور (مناسب) احکام سنائے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا اس میں یہ بات بھی تھی کہ جو کوئی عورت تم میں سے (اپنے) تین (لڑکے) آگے بھیج دے گی تو وہ اس کے لیے دوزخ سے پناہ بن جائیں گے۔ اس پر ایک عورت نے کہا، اگر دو (بچے بھیج دے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اور دو (کا بھی یہ حکم ہے)۔

اس بیان میں کہ کیا عورتوں کی تعلیم کے لیے کوئی خاص دن مقرر کیا جا سکتا ہے ؟

حد یث نمبر - 102

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ذَكْوَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثَلَاثَةً لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ.

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے عبدالرحمٰن بن الاصبہانی کے واسطے سے بیان کیا، وہ ذکوان سے، وہ ابوسعید سے اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔ اور (دوسری سند میں)عبدالرحمٰن الاصبہانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوحازم سے سنا، وہ ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ایسے تین (بچے) جو ابھی بلوغت کو نہ پہنچے ہوں۔

اس بارے میں کہ ایک شخص کوئی بات سنے اور نہ سمجھے تو دوبارہ دریافت کر لے تاکہ وہ اسے ( اچھی طرح ) سمجھ لے ، یہ جائز ہے

حد یث نمبر - 103

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَا تَسْمَعُ شَيْئًا لَا تَعْرِفُهُ إِلَّا رَاجَعَتْ فِيهِ حَتَّى تَعْرِفَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ أَوَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا سورة الانشقاق آية 8، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ يَهْلِكْ".

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہیں نافع بن عمر نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا جب کوئی ایسی باتیں سنتیں جس کو سمجھ نہ پاتیں تو دوبارہ اس کو معلوم کرتیں تاکہ سمجھ لیں۔ چنانچہ (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے حساب لیا گیا اسے عذاب کیا جائے گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (یہ سن کر) میں نے کہا کہ کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ صرف (اللہ کے دربار میں) پیشی کا ذکر ہے۔ لیکن جس کے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی (سمجھو) وہ غارت ہو گیا۔

اس بارے میں کہ جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص کو علم پہنچائیں

قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

یہ قول ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے (اور بخاری کتاب الحج میں یہ تعلیق باسناد موجود ہے)۔

اس بارے میں کہ جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص کو علم پہنچائیں

حد یث نمبر - 104

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَعِيدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ:‏‏‏‏ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، ‏‏‏‏‏‏وَوَعَاهُ قَلْبِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ"، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ:‏‏‏‏ مَا قَالَ عَمْرٌو ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ.

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے، وہ ابوشریح سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمرو بن سعید (والی مدینہ) سے جب وہ مکہ میں (ابن زبیر سے لڑنے کے لیے) فوجیں بھیج رہے تھے کہا کہ اے امیر! مجھے آپ اجازت دیں تو میں وہ حدیث آپ سے بیان کر دوں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس(حدیث) کو میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا ہے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی۔ آج اس کی حرمت لوٹ آئی، جیسی کل تھی۔ اور حاضر غائب کو (یہ بات) پہنچا دے۔ (یہ حدیث سننے کے بعد راوی حدیث) ابوشریح سے پوچھا گیا کہ (آپ کی یہ بات سن کر) عمرو نے کیا جواب دیا؟ کہا یوں کہ اے (ابوشریح!) حدیث کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ مگر حرم (مکہ) کسی خطاکار کو یا خون کر کے اور فتنہ پھیلا کر بھاگ آنے والے کو پناہ نہیں دیتا۔

اس بارے میں کہ جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص کو علم پہنچائیں

حد یث نمبر - 105

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏ذُكِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدٌ وَأَحْسِبُهُ قَالَ:‏‏‏‏ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، ‏‏‏‏‏‏كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏أَلَا لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ"، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ مُحَمَّدٌ يَقُولُ:‏‏‏‏ صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ ذَلِكَ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ مَرَّتَيْنِ.

ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے حماد نے ایوب کے واسطے سے نقل کیا، وہ محمد سے اور وہ ابن ابی بکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں) فرمایا، تمہارے خون اور تمہارے مال، محمد کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «وأعراضكم» کا لفظ بھی فرمایا۔ (یعنی) اور تمہاری آبروئیں تم پر حرام ہیں۔ جس طرح تمہارے آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں۔ سن لو! یہ خبر حاضر غائب کو پہنچا دے۔ اور محمد (راوی حدیث) کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ (پھر) دوبارہ فرمایا کہ کیا میں نے (اللہ کا یہ حکم)تمہیں نہیں پہنچا دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے

حد یث نمبر - 106

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي مَنْصُورٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُعَلِيًّا ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَلِجْ النَّارَ".

ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، انہیں شعبہ نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہوں نے ربعی بن حراش سے سنا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر جھوٹ مت بولو۔ کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ دوزخ میں داخل ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے

حد یث نمبر - 107

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِلزُّبَيْرِ :‏‏‏‏ إِنِّي لَا أَسْمَعُكَ تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا يُحَدِّثُ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا إِنِّي لَمْ أُفَارِقْهُ وَلَكِنْ سَمِعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے جامع بن شداد نے، وہ عامر بن عبداللہ بن زبیر سے اور وہ اپنے باپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے اپنے باپ یعنی زبیر سے عرض کیا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں، کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے

حد یث نمبر - 108

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَنَسٌ :‏‏‏‏ إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے عبدالعزیز کے واسطے سے نقل کیا کہ انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے

حد یث نمبر - 109

حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".

ہم سے مکی ابن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے

حد یث نمبر - 110

حَدَّثَنَا مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَصِينٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَسَمَّوْا بِاسْمِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".

ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی حصین کے واسطہ سے نقل کیا، وہ ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (اپنی اولاد) کا میرے نام کے اوپر نام رکھو۔ مگر میری کنیت اختیار نہ کرو اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو بلاشبہ اس نے مجھے دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے۔

( دینی ) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 111

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُطَرِّفٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُلِعَلِيِّ :‏‏‏‏ "هَلْ عِنْدَكُمْ كِتَابٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ فَهْمٌ أُعْطِيَهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ أَوْ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الْأَسِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ".

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہیں وکیع نے سفیان سے خبر دی، انہوں نے مطرف سے سنا، انہوں نے شعبی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوحجیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔

( دینی ) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 112

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِيلَ، ‏‏‏‏‏‏شَكَّ أَبُو عَبْد اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏كَذَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ:‏‏‏‏ وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الْفِيلَ أَوِ الْقَتْلَ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْفِيلَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلُّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّهَا حَلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّهَا سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ لَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُلْتَقَطُ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ الْقَتِيلِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اكْتُبُوا لِأَبِي فُلَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ:‏‏‏‏ إِلَّا الْإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي بُيُوتِنَا وَقُبُورِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِلَّا الْإِذْخِرَ إِلَّا الْإِذْخِرَ"قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ يُقَالُ يُقَادُ بِالْقَافِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ:‏‏‏‏ أَيُّ شَيْءٍ كَتَبَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَتَبَ لَهُ هَذِهِ الْخُطْبَةَ.

ہم سے ابونعیم الفضل بن دکین نے بیان کیا، ان سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوسلمہ سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس لفظ کو شک کے ساتھ سمجھو، ایسا ہی ابونعیم وغیرہ نے «القتل» اور«الفيل» کہا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ «الفيل» کہتے ہیں۔ (پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) کہ اللہ نے ان پر اپنے رسول اور مسلمان کو غالب کر دیا اور سمجھ لو کہ وہ (مکہ) کسی کے لیے حلال نہیں ہوا۔ نہ مجھ سے پہلے اور نہ (آئندہ) کبھی ہو گا اور میرے لیے بھی صرف دن کے تھوڑے سے حصہ کے لیے حلال کر دیا گیا تھا۔ سن لو کہ وہ اس وقت حرام ہے۔ نہ اس کا کوئی کانٹا توڑا جائے، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور اس کی گری پڑی چیزیں بھی وہی اٹھائے جس کا منشاء یہ ہو کہ وہ اس چیز کا تعارف کرا دے گا۔ تو اگر کوئی شخص مارا جائے تو (اس کے عزیزوں کو) اختیار ہے دو باتوں کا، یا دیت لیں یا بدلہ۔ اتنے میں ایک یمنی آدمی (ابوشاہ نامی) آیا اور کہنے لگا (یہ مسائل) میرے لیے لکھوا دیجیئے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوفلاں کے لیے (یہ مسائل) لکھ دو۔ تو ایک قریشی شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! مگر اذخر (یعنی اذخر کاٹنے کی اجازت دے دیجیئے) کیونکہ اسے ہم گھروں کی چھتوں پر ڈالتے ہیں۔ (یا مٹی ملا کر) اور اپنی قبروں میں بھی ڈالتے ہیں (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ہاں) مگر اذخر، مگر اذخر۔

( دینی ) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 113

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَخِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلَا أَكْتُبُ"، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ .

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے وہب بن منبہ نے اپنے بھائی کے واسطے سے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا۔ مگر وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ دوسری سند سے معمر نے وہب بن منبہ کی متابعت کی، وہ ہمام سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔

( دینی ) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں

حد یث نمبر - 114

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ".

ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے، انہیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ سے، وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔

اس بیان میں کہ رات کو تعلیم دینا اور وعظ کرنا جائز ہے

حد یث نمبر - 115

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِنْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَة ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِنْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "سُبْحَانَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَاذَا فُتِحَ مِنَ الْخَزَائِنِ، ‏‏‏‏‏‏أَيْقِظُوا صَوَاحِبَاتِ الْحُجَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَرُبَّ كَاسِيَةٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَةٍ فِي الْآخِرَةِ".

صدقہ نے ہم سے بیان کیا، انہیں ابن عیینہ نے معمر کے واسطے سے خبر دی، وہ زہری سے روایت کرتے ہیں، زہری ہند سے، وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے، (دوسری سند میں) عمرو اور یحییٰ بن سعید زہری سے، وہ ایک عورت سے، وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیدار ہوتے ہی فرمایا کہ سبحان اللہ! آج کی رات کس قدر فتنے اتارے گئے ہیں اور کتنے ہی خزانے بھی کھولے گئے ہیں۔ ان حجرہ والیوں کو جگاؤ۔ کیونکہ بہت سی عورتیں (جو) دنیا میں (باریک) کپڑا پہننے والی ہیں وہ آخرت میں ننگی ہوں گی۔

اس بارے میں کہ سونے سے پہلے رات کے وقت علمی باتیں کرنا جائز ہے

حد یث نمبر - 116

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ".

سعید بن عفیر نے ہم سے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن خالد بن مسافر نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے سالم اور ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آخر عمر میں (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔

اس بارے میں کہ سونے سے پہلے رات کے وقت علمی باتیں کرنا جائز ہے

حد یث نمبر - 117

حَدَّثَنَا آدَمُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَامَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ نَامَ الْغُلَيِّمُ أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَامَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ أَوْ خَطِيطَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ".

ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، ان کو حکم نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت (نماز نفل) پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ(ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کر لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے۔

علم کو محفوظ رکھنے کے بیان میں

حد یث نمبر - 118

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا آيَتَانِ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا حَدَّثْتُ حَدِيثًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَتْلُو إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ إِلَى قَوْلِهِ الرَّحِيمُ سورة البقرة آية 159 - 160، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمْ والصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الْعَمَلُ فِي أَمْوَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏"وَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِبَعِ بَطْنِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَحْضُرُ مَا لَا يَحْضُرُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَحْفَظُ مَا لَا يَحْفَظُونَ".

عبدالعزیز بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت حدیثیں بیان کرتے ہیں اور (میں کہتا ہوں) کہ قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ پھر یہ آیت پڑھی، (جس کا ترجمہ یہ ہے) کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی دلیلوں اور آیتوں کو چھپاتے ہیں (آخر آیت) «رحيم‏» تک۔ (واقعہ یہ ہے کہ) ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خرید و فروخت میں لگے رہتے تھے اور انصار بھائی اپنی جائیدادوں میں مشغول رہتے اور ابوہریرہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جی بھر کر رہتا (تاکہ آپ کی رفاقت میں شکم پری سے بھی بےفکری رہے) اور (ان مجلسوں میں) حاضر رہتا جن (مجلسوں) میں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ(باتیں) محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔

علم کو محفوظ رکھنے کے بیان میں

حد یث نمبر - 119

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ أَبُو مُصْعَبٍ، ‏‏‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ "يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ ضُمَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ"، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ بِهَذَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ غَرَفَ بِيَدِهِ فِيهِ.

ہم سے ابومصعب احمد بن ابی بکر نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن دینار نے ابن ابی ذئب کے واسطے سے بیان کیا، وہ سعید المقبری سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت باتیں سنتا ہوں، مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھیلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور (میری چادر میں ڈال دی) فرمایا کہ (چادر کو) لپیٹ لو۔ میں نے چادر کو (اپنے بدن پر) لپیٹ لیا، پھر (اس کے بعد) میں کوئی چیز نہیں بھولا۔ ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی فدیک نے اسی طرح بیان کیا کہ (یوں) فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو اس (چادر) میں ڈال دی۔

علم کو محفوظ رکھنے کے بیان میں

حد یث نمبر - 120

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَخِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ".

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی (عبدالحمید) نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا۔ وہ سعید المقبری سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (علم کے) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ «بلعوم» سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔

اس بارے میں کہ عالموں کی بات خاموشی سے سننا ضروری ہے

حد یث نمبر - 121

حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَرِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:‏‏‏‏ اسْتَنْصِتِ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".

ہم سے حجاج نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے علی بن مدرک نے ابوزرعہ سے خبر دی، وہ جریر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو (تاکہ وہ خوب سن لیں) پھر فرمایا، لوگو! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔

اس بیان میں کہ جب کسی عالم سے یہ پوچھا جائے کہ لوگوں میں کون سب سے زیادہ علم رکھتا ہے ؟ تو بہتر یہ ہے کہ اللہ کے حوالے کر دے یعنی یہ کہہ دے کہ اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے یا یہ کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون سب سے بڑا عالم ہے

حد یث نمبر - 122

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏"قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ، ‏‏‏‏‏‏وَكَيْفَ بِهِ ؟ فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ، ‏‏‏‏‏‏وَانْطَلَقَ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ وَحَمَلَا حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى كَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا وَنَامَا، ‏‏‏‏‏‏فَانْسَلَّ الْحُوتُ مِنَ الْمِكْتَلِ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّخَذَ سَبِلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَصْبَحَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ:‏‏‏‏ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى مَسًّا مِنَ النَّصَبِ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، ‏‏‏‏‏‏فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ أَوْ قَالَ تَسَجَّى بِثَوْبِهِ فَسَلَّمَ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْخَضِرُ:‏‏‏‏ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا لمُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ بَنِي إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا يَا مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ عَلَّمَكَهُ لَا أَعْلَمُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْخَضِرُ:‏‏‏‏ يَا مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَنَقْرَةِ هَذَا الْعُصْفُورِ فِي الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَا فَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلَاهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ:‏‏‏‏ وَهَذَا أَوْكَدُ فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْخَضِرُ:‏‏‏‏ بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ مُوسَى:‏‏‏‏ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا".

ہم سے عبداللہ بن محمد المسندی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، انہیں سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام (جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے، (یہ سن کر) ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ ہم سے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ (جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں) وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے، موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے پروردگار! میری ان سے ملاقات کیسے ہو؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں (وہیں) ملے گا۔ تب موسیٰ علیہ السلام چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انہوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی، جب (ایک) پتھر کے پاس پہنچے، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں (جتنا وقت باقی تھا) چلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر میں ہم نے (کافی) تکلیف اٹھائی ہے اور موسیٰ علیہ السلام بالکل نہیں تھکے تھے، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا، تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا، (بقول بعض صخرہ کے نیچے آب حیات تھا، وہ اس مچھلی پر پڑا، اور وہ زندہ ہو کر بقدرت الٰہی دریا میں چل دی) (یہ سن کر) موسیٰ علیہ السلام بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے (موجود ہے) موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا، خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں؟ پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) ہوں، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں! پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں، تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔ خضر علیہ السلام بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ اسے موسیٰ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔ (اس پر) موسیٰ نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر علیہ السلام کو انہوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں(اسے دیکھ کر) خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہو گا جتنا اس چڑیا نے سمندر (کے پانی) سے پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر (مفت میں) سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی (کی لکڑی) اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں، خضر علیہ السلام بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟ (اس پر) موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا۔ پھر دونوں چلے (کشتی سے اتر کر) ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر علیہ السلام نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا (غضب ہو گیا) خضر علیہ السلام بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے (کیونکہ پہلے کلام میں لفظ لک نہیں کہا تھا، اس میں لک زائد کیا، جس سے تاکید ظاہر ہے) پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو (گاؤں والوں سے) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ خضر نے کہا کہ (بس اب) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے۔ جناب محبوب کبریا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کئے جاتے (اور ہمارے سامنے روشنی میں آتے، مگر موسیٰ علیہ السلام کی عجلت نے اس علم لدنی کے سلسلہ کو جلد ہی منقطع کرا دیا) محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن خشرم نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان بن عیینہ نے پوری کی پوری بیان کی۔

کھڑے ہو کر کسی عالم سے سوال کرنا جو بیٹھا ہوا ہو ( جائز ہے )

حد یث نمبر - 123

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، ‏‏‏‏‏‏فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".

ہم سے عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے اور کوئی غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سر اٹھایا، اور سر اسی لیے اٹھایا کہ پوچھنے والا کھڑا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے، وہ اللہ کی راہ میں (لڑتا) ہے۔

رمی جمار ( یعنی حج میں پتھر پھینکنے ) کے وقت بھی مسئلہ پوچھنا جائز ہے

حد یث نمبر - 124

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ وَهُوَ يُسْأَلُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ارْمِ وَلَا حَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ آخَرُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ انْحَرْ وَلَا حَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ:‏‏‏‏ افْعَلْ وَلَا حَرَجَ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے زہری کے واسطے سے روایت کیا، انہوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمی جمار کے وقت دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جا رہا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے رمی سے قبل قربانی کر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اب) رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہوا۔ دوسرے نے کہا، یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اب) قربانی کر لو کچھ حرج نہیں۔ (اس وقت) جس چیز کے بارے میں جو آگے پیچھے ہو گئی تھی، آپ سے پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہی جواب دیا (اب) کر لو کچھ حرج نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح میں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے

حد یث نمبر - 125

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ سُلَيْمَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ:‏‏‏‏ سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَا تَسْأَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَنَسْأَلَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏مَا الرُّوحُ ؟ فَسَكَتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْأَعْمَشُ:‏‏‏‏ هَكَذَا فِي قِرَاءَتِنَا.

ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے، ان سے اعمش سلیمان بن مہران نے ابراہیم کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے علقمہ سے نقل کیا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہ کیفیت) دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی  (اے نبی!) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے۔  (اس لیے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے) اعمش کہتے ہیں کہ ہماری قرآت میں «وما اوتوا» ہے۔ ( «‏‏‏‏وما اوتيتم» ‏‏‏‏) نہیں۔

اس بارے میں کہ کوئی شخص بعض باتوں کو اس خوف سے چھوڑ دے کہ کہیں لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس سے زیادہ سخت ( یعنی ناجائز ) باتوں میں مبتلا نہ ہو جائیں

حد یث نمبر - 126

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْرَائِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ :‏‏‏‏ كَانَتْ عَائِشَةُتُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا، ‏‏‏‏‏‏فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ قَالَتْ لِي:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَا عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏لَوْلَا قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ:‏‏‏‏ بِكُفْرٍ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ"، ‏‏‏‏‏‏فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ.

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے اسرائیل کے واسطے سے نقل کیا، انہوں نے ابواسحاق سے اسود کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا (ہاں) مجھ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم (دور جاہلیت کے ساتھ) قریب نہ ہوتی (بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ (قریب نہ ہوتی) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، (بعد میں) ابن زبیر نے یہ کام کیا۔

اس بارے میں کہ علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا اور کچھ لوگوں کو نہ بتانا اس خیال سے کہ ان کی سمجھ میں نہ آئیں گی ( یہ عین مناسب ہے )

وَقَالَ عَلِيٌّ :‏‏‏‏ "حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ، ‏‏‏‏‏‏أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ".

علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ لوگوں سے وہ باتیں کرو جنھیں وہ پہچانتے ہوں۔ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیں؟

اس بارے میں کہ علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا اور کچھ لوگوں کو نہ بتانا اس خیال سے کہ ان کی سمجھ میں نہ آئیں گی ( یہ عین مناسب ہے )

حد یث نمبر - 127

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ بِذَلِكَ.

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے معروف کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے ابوالطفیل سے نقل کیا، انہوں نے علی سے مضمون حدیث«حدثوا الناس بما يعرفون» الخ بیان کیا، (ترجمہ گذر چکا ہے۔)

اس بارے میں کہ علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا اور کچھ لوگوں کو نہ بتانا اس خیال سے کہ ان کی سمجھ میں نہ آئیں گی ( یہ عین مناسب ہے )

حد یث نمبر - 128

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنَ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا مُعَاذُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذًا يَتَّكِلُوا"، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا.

ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، اس نے کہا کہ میرے باپ نے قتادہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوبارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سہ بارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول، تین بار ایسا ہوا۔ (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو (دوزخ کی) آگ پر حرام کر دیتا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اگر تم یہ خبر سناؤ گے) تو لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (اور عمل چھوڑ دیں گے) معاذ رضی اللہ عنہ نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔

اس بارے میں کہ علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا اور کچھ لوگوں کو نہ بتانا اس خیال سے کہ ان کی سمجھ میں نہ آئیں گی ( یہ عین مناسب ہے )

حد یث نمبر - 129

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسًا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِمُعَاذِ:‏‏‏‏ "مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے معتمر نے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے سنا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ (یقیناً) جنت میں داخل ہو گا، معاذ بولے، یا رسول اللہ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔

اس بیان میں کہ حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے !

وَقَالَ مُجَاهِدٌ لاَ يَتَعَلَّمُ الْعِلْمَ مُسْتَحْىٍ وَلاَ مُسْتَكْبِرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ عَائِشَةُ نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الأَنْصَارِ لَمْ يَمْنَعْهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِي الدِّينِ‏.‏

مجاہد کہتے ہیں کہ متکبر اور شرمانے والا آدمی علم حاصل نہیں کر سکتا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے کہ انصار کی عورتیں اچھی عورتیں ہیں کہ شرم انہیں دین میں سمجھ پیدا کرنے سے نہیں روکتی۔

اس بیان میں کہ حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے !

حد یث نمبر - 130

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هِشَامُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏"إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا احْتَلَمَتْ ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَغَطَّتْ أُمُّ سَلَمَةَ تَعْنِي وَجْهَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوَتَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏تَرِبَتْ يَمِينُكِ فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا".

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے ہشام نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے زینب بنت ام سلمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ (اپنی والدہ) ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ ام سلیم (نامی ایک عورت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا (اس لیے میں پوچھتی ہوں کہ) کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ہاں)جب عورت پانی دیکھ لے۔ (یعنی کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر معلوم ہو) تو (یہ سن کر) ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے (شرم کی وجہ سے) اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا، یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں! تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کے مشابہ ہوتا ہے (یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے)۔

اس بیان میں کہ حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے !

حد یث نمبر - 131

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَهِيَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، ‏‏‏‏‏‏حَدِّثُونِي مَا هِيَ ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَادِيَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ فَاسْتَحْيَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبِرْنَا بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هِيَ النَّخْلَةُ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا.

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے عبداللہ بن دینار کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا) ہے۔ جس کے پتے (کبھی) نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا (درخت) ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑ گئے اور میرے دل میں آیا (کہ میں بتلا دوں) کہ وہ کھجور (کا پیڑ) ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آ گئی (اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی (خود) اس کے بارہ میں بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کھجور ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد (عمر رضی اللہ عنہ) کو بتلائی، وہ کہنے لگے کہ اگر تو (اس وقت) کہہ دیتا تو میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا۔

اس بیان میں کہ مسائل شرعیہ معلوم کرنے میں جو شخص ( کسی معقول وجہ سے ) شرمائے وہ کسی دوسرے آدمی کے ذریعے سے مسئلہ معلوم کر لے

حد یث نمبر - 132

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُنْذِرٍ الْثَّوْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَلِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ أَنْ يَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ فِيهِ الْوُضُوءُ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ ابن داؤد نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے منذر ثوری سے نقل کیا، انہوں نے محمد ابن الحنفیہ سے نقل کیا، وہ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایسا شخص تھا جسے جریان مذی کی شکایت تھی، تو میں نے(اپنے شاگرد) مقداد کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں۔ تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس (مرض) میں غسل نہیں ہے (ہاں) وضو فرض ہے۔

مسجد میں علمی مذاکرہ کرنا اور فتوی دینا جائز ہے

حد یث نمبر - 133

حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا قَامَ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ أَيْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنْ الْجُحْفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ وَيَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَمْ أَفْقَهْ هَذِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، ان سے نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر بن الخطاب نے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ (ایک مرتبہ) ایک آدمی نے مسجد میں کھڑے ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس جگہ سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مدینہ والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں، اور اہل شام جحفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ (آخری جملہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد نہیں۔

سائل کو اس کے سوال سے زیادہ جواب دینا ، ( تاکہ اسے تفصیلی معلومات ہو جائیں )

حد یث نمبر - 134

حَدَّثَنَا آدَمُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ وَلَا الْعِمَامَةَ وَلَا السَّرَاوِيلَ وَلَا الْبُرْنُسَ وَلَا ثَوْبًا مَسَّهُ الْوَرْسُ أَوِ الزَّعْفَرَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَكُونَا تَحْتَ الْكَعْبَيْنِ".

ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ان کو ابن ابی ذئب نے نافع کے واسطے سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور (دوسری سند میں) زہری سالم سے، کہا وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ احرام باندھنے والے کو کیا پہننا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ قمیص پہنے نہ صافہ باندھے اور نہ پاجامہ اور نہ کوئی سرپوش اوڑھے اور نہ کوئی زعفران اور ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے اور اگر جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انہیں (اس طرح) کاٹ دے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔